امتحاں اپنے جفا کش کا اسے منظور تھا
امتحاں اپنے جفا کش کا اسے منظور تھا
ورنہ میں نزدیک تھا فرقت میں کیا کچھ دور تھا
پوچھے ہے عاشق کی اپنی دیکھ کر تربت کو کیا
کشتگان عشق سے یہ بھی کوئی مغفور تھا
مدعا تھا ہم سے بھڑکانا اسے باتیں سنا
خیر خواہی کا ہماری اس میں کیا مذکور تھا
مرتے مرتے ابر کو ہرگز نہ منہ چڑھنے دیا
آفریں اے چشم تر تیرا ہی یہ مقدور تھا
مے پرستوں نے ترے یوں بھی نہ جانا کون ہے
شیخ گو شیطان سے زیادہ یہاں مشہور تھا
تیرہ بختان اسیر زلف کی اپنے نہ پوچھ
روز و شب یاں ایک ہے دن بھی شب دیجور تھا
بے قراری دل کی لے آئی گلی میں تیری یار
اس کو ہاتھوں کیا کروں ناچار تھا مجبور تھا
وصل میں بھی ہائے اپنے جی کی جی میں ہی رہی
کچھ نہ کہنے پائے فدویؔ وہ نشے میں چور تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.