ان در و دیوار کی آنکھوں سے پٹی کھول کر
ان در و دیوار کی آنکھوں سے پٹی کھول کر
ڈوبتے سورج کا منظر دیکھ کھڑکی کھول کر
اشک آنکھوں میں اگر کچھ ہیں تو کر شب کا سفر
راستے میں آسماں بیٹھا ہے جھولی کھول کر
اور کچھ تازہ لکیریں شکل کے خاکے پہ ہیں
دیکھ اپنے ہاتھ کا آئینہ مٹھی کھول کر
پیکر مفہوم بن کر بھی کبھی پہلو میں آ
لفظ دیتے ہیں صدا باب معانی کھول کر
سطح دریا پر بھڑک اٹھی ہے پھر موجوں کی آگ
کون اس طوفان میں اترے گا کشتی کھول کر
لے اڑے طائر قفس کی تیلیاں پرواز میں
اب گلے میں ڈال دے پیروں سے رسی کھول کر
بڑھ گئی کچھ اور پیاسی کھیتیوں کی تشنگی
ابر چھایا تھا مگر برسا نہیں جی کھول کر
ہو گئے آباد میرے جسم کے دیوار و در
کون گھر میں آ گیا دروازہ خود ہی کھول کر
دھوپ میں سوکھے ہوئے پتے ہوا دینے لگے
بند لب گویا ہوئے قفل خموشی کھول کر
کیا عجب شاہدؔ کہ میری داستاں اس میں بھی ہو
جو کتاب اک بار بھی میں نے نہ دیکھی کھول کر
- کتاب : Subh-e-safar (Pg. 18)
- Author : Saleem Shahid
- مطبع : Ham asr, Lahore (1971)
- اشاعت : 1971
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.