ان دنوں ہر شہر کا نقشہ بیابانی تو ہے
ان دنوں ہر شہر کا نقشہ بیابانی تو ہے
ہیں در و دیوار لیکن پھر بھی ویرانی تو ہے
ہے قبائے گل بہر صورت بہاروں کی نقیب
لاکھ زنجیریں نہ ہوں پر چاک دامانی تو ہے
یہ الگ ہے دوستوں کے نام لے سکتے نہیں
ہم نے اپنے قاتلوں کی شکل پہچانی تو ہے
ہر ہوس پیشہ نے اپنایا ہے شیوہ عشق کا
حسن کی بازار میں ہر سمت ارزانی تو ہے
قتل کر کے بھی یہاں نادم نہیں ہوتے ہیں لوگ
اس نے دل توڑا مگر اس کو پشیمانی تو ہے
عشق میں ہم نے متاع زندگانی پھونک دی
عقل والوں کی نظر میں یہ بھی نادانی تو ہے
سب سے چھپ سکتا ہے لیکن خود سے چھپ سکتا نہیں
یعنی تیرے ہر عمل پر اک نگہبانی تو ہے
سب گناہوں کا تعلق جسم کی مٹی سے ہے
اور عبرت گاہ ہستی میں بدن فانی تو ہے
حسن فطرت کے لیے بھی شرط ہے شرم و حجاب
گل کے ہونٹوں پر ہنسی اور آنکھ میں پانی تو ہے
سچ تو یہ ہے قائد ملت کی ہر تقریر میں
مصلحت کے نام پر کچھ کچھ ثنا خوانی تو ہے
صرف یک طرفہ نہیں اپنے جنوں کی داستاں
میں ہوا دیوانہ لیکن وہ بھی دیوانی تو ہے
کچھ نہ کچھ تو جھانکتا ہے پیرہن کی اوٹ سے
ستر پوشی میں بھی شامل تھوڑی عریانی تو ہے
حق پرستوں کے لیے دشوار ہے دنیا مگر
اک ستون دار تک جانے میں آسانی تو ہے
سارے رشتے منقطع وہ کر چکا ہم سے نسیمؔ
اک تعلق پھر بھی اس سے اپنا انسانی تو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.