ان دنوں شام ایسے آتی ہے
موج خوں میں نہا کے جاتی ہے
ایک صحرا مجھے بلاتا ہے
ایک وحشت گلے لگاتی ہے
پہلے ہم دھوپ میں جھلستے تھے
اب تو یہ چھاؤں بھی جلاتی ہے
کتنی معصوم ہے وفا اپنی
بے وفائی ہنسی اڑاتی ہے
غیر کی بات اس سے کیوں پوچھی
اس کی سچائی اب رلاتی ہے
کتنے عشوے ہیں اک محبت کے
کتنے پہلو سے آزماتی ہے
ایک دن اعتبار ٹوٹا تھا
اب تو ہر چیز ٹوٹ جاتی ہے
خواب آنکھوں میں جب بھی آتا ہے
ایک تعبیر منہ چڑھاتی ہے
تیر کیسا تھا جانے اے خالدؔ
روح زخموں سے چھٹپٹاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.