انہیں فکروں میں گزری عمر راحت کیسی ہوتی ہے
انہیں فکروں میں گزری عمر راحت کیسی ہوتی ہے
یہی الجھن رہی ہر دم مسرت کیسی ہوتی ہے
بتاؤں کیا کسی کو میں کہ ہجرت کیسی ہوتی ہے
تمنا کی حریم دل سے رخصت کیسی ہوتی ہے
ذرا تو غور کر اے دل کی فرحت کیسی ہوتی ہے
نظر پھولوں پہ پڑتے ہی مسرت کیسی ہوتی ہے
تلاش یار میں نکلے تو پھر تکلیف کا کیا غم
خیال عشق کیا جانے مصیبت کیسی ہوتی ہے
محبت کی نظر سے دیکھ لے کوئی ذرا آکر
یہ حسرت ہے کہ آنکھوں کی زیارت کیسی ہوتی ہے
جہاں مجبوریاں ہوں سیر کر اس باغ کی جا کر
تجھے معلوم ہو جائے گا حسرت کیسی ہوتی ہے
غلط ہے زاہدوں کو ناز اپنی خشک طاعت پر
یہ پوچھ ان کے گنہ گاروں سے رحمت کیسی ہوتی ہے
ہوئے لاکھوں بپا محشر ازل سے آج تک دل میں
ارے واعظ تو کیا جانے قیامت کیسی ہوتی ہے
انہیں ہم جان و دل دے کر رہے تکلیف میں دائم
نہ جانے عیش کیا ہے اور راحت کیسی ہوتی ہے
شکایت ہجر کی کرنے ہی کو تھے جوش الفت میں
دل بیتاب چلایا کہ فرقت کیسی ہوتی ہے
کوئی ہے مبتلائے غم کوئی مصروف عشرت ہے
مگر یہ کوئی کیا سمجھے مشیت کیسی ہوتی ہے
تری منشا سے ہیں بیمار درمان و دوا سے کیا
ہمیں اب تک نہیں معلوم صحت کیسی ہوتی ہے
چمن میں گل ہزاروں ہیں مگر جانے سے ہوں قاصر
ارے توبہ یہ کیوں کہہ دوں کہ حسرت کیسی ہوتی ہے
عمرؔ جو دید کے طالب ہیں وہ آئیں تو محشر میں
سر محفل یہ دیکھیں گے کہ عظمت کیسی ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.