انعکاس تشنگی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
انعکاس تشنگی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
تر بتر یہ روشنی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
آگ پر میرا تصرف آب پر میری گرفت
میری مٹھی میں ابھی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
جھیل میں ٹھہرا ہوا ہے اس کا عکس آتشیں
آئنے میں اس گھڑی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
جل اٹھیں یادوں کی قندیلیں صدائیں ڈوب جائیں
درحقیقت خامشی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
زندہ لوٹ آیا ہوں جنگل سے تو کیا جائے ملال
میرے رستے میں ابھی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
کوئی خیمے راکھ کر دے کوئی بازو چھین لے
ایک سی غارتگری صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
ریت پر رکھوں تجھے یا بہتے پانی میں بہاؤں
دیکھ اے تشنہ لبی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
تو بگولا ہے کہ ہے گرداب اے رقص دوام
فیصلہ کر لے ابھی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
دشت بھی اس کی روایت میں ہے موج آب بھی
میری آنکھوں کی نمی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
تو سنبھالے گا بھلا کیسے یہ ساری سلطنت
شہریارؔ شاعری صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.