انقلاب سحر و شام کی کچھ بات کرو
انقلاب سحر و شام کی کچھ بات کرو
دوستو گردش ایام کی کچھ بات کرو
جام و مینا تو کہیں اور سے لے آئیں گے
مے کشو ساقیٔ گلفام کی کچھ بات کرو
غیر کی صبح درخشاں کا تصور کب تک
اپنی کجلائی ہوئی شام کی کچھ بات کرو
پھر جلانا مہ و خورشید کی محفل میں چراغ
پہلے اپنے ہی در و بام کی کچھ بات کرو
کیا یہ ٹوٹے ہوئے پیمانے لئے بیٹھے ہو
بادہ نوشو ستم عام کی کچھ بات کرو
ذکر فردوس و ارم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
آج تو عارض اصنام کی کچھ بات کرو
میں تو خیر اپنی وفاؤں پہ ہوں نازاں لیکن
وہ جو تم پر ہے اس الزام کی کچھ بات کرو
تلخیٔ کام و دہن سے کہیں غم دھلتے ہیں
ظالمو تلخیٔ ایام کی کچھ بات کرو
اتنا سناٹا کہ احساس کا دم گھٹتا ہے
صبح کا ذکر کرو شام کی کچھ بات کرو
وہی ارشدؔ کہ جلاتا ہے جو آندھی میں چراغ
ہاں اسی شاعر بدنام کی کچھ بات کرو
- کتاب : Nagma zaad (Pg. 79)
- Author : Arshad Siddiqui
- مطبع : Arshad Siddiqui (2000)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.