عرفان ہے یہ عشق کے سوز و گداز کا
دلچسپ معلومات
(مارچ 1926 ء)
عرفان ہے یہ عشق کے سوز و گداز کا
پردہ اٹھا رہا ہے کوئی امتیاز کا
تاروں سے پوچھئے مری آنکھوں کو دیکھیے
دنیا کو کیا پتہ شب ہجر دراز کا
جانے سے قبل طور پہ موسیٰ یہ دیکھتے
کیا ظرف ہے حواس تجلی نواز کا
سب سرخیاں ہیں خون وفا سی لکھی ہوئی
قصہ ہے دل گداز شہید نیاز کا
سر بے خودی میں آپ کے قدموں پہ جھک گیا
آیا تھا کچھ خیال سا دل میں نماز کا
آنکھیں جھکا نظر نہ ملا دل پہ تیر کھا
پہلا سبق ہے عشق کے راز و نیاز کا
محفل میں دیکھتے ہیں وہ تصویر کی طرح
مرکز ہے ہر نفس نگہ امتیاز کا
دیکھا پھر اس نے قلب کی پھر حرکتیں بڑھیں
زخمہ بنی ہے پھر نگہ ناز ساز کا
ظرف آزمائے سوزش صد برق طور سے
لیجے نہ امتحان دل بے نیاز کا
طالبؔ اگر نظر نہ ہو پامال خواہشات
ہر لمعہ برق طور ہے حسن مجاز کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.