اس آس پر کہ اداسی کسی ٹھکانے لگے
گلوب رکھ لیا ٹیبل پہ اور گھمانے لگے
عجیب دکھ ہے ترے ہاتھ پیلے ہونے سے
ہمارے خواب میں کالے گلاب آنے لگے
کہیں سے ابر نہ آیا تو احتجاج میں ہم
برہنہ ہو گئے اور دھوپ میں نہانے لگے
گلی میں ایک طرف بوریا بچھا لیا تھا
ہمارے ہاتھ نہیں تھے مگر کمانے لگے
ہمیں خزانہ نہیں چھاؤں چاہئے تھی سو ہم
تری گری ہوئی دیوار کو اٹھانے لگے
یہ ہم سے ہو گیا تھا ہم نے خود کیا نہیں تھا
کسی نے پھول دیا ہم اسے چبانے لگے
وہ سیرگاہ میں بس سرسری دکھائی دیا
خیال گاہ میں کچھ شعر سرسرانے لگے
مجھے بلایا گیا پل صراط سے گزرو
فرشتے ہنسنے لگے سیٹیاں بجانے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.