اس عہد ترقی کا انداز نرالا ہے
بستی میں اندھیرا ہے صحرا میں اجالا ہے
اوروں کو بھی لطف آئے یوں راہ میں ڈالا ہے
کانٹا جو ابھی ہم نے پیروں سے نکالا ہے
آساں ہے مسافت بھی ہے شغل عبادت بھی
ہر موڑ پہ رستے کے اب ایک شوالا ہے
تم کچھ بھی کرو تم پر کچھ آنچ نہ آئے گی
انکار کا آلہ بھی کیا کام کا آلہ ہے
ہم لاکھ مچائیں غل سنتا ہی نہیں اپنی
تم بولو تو کھل جائے کیا خوب یہ تالا ہے
لرزاں ہیں قدم اپنے اب ہم کو سنبھالے کون
ہم نے تو یہاں کتنے گرتوں کو سنبھالا ہے
لگتی ہے اسی دن سے محفل تری بے رونق
دیوانے کو جس دن سے محفل سے نکالا ہے
بے وقت کی یہ آندھی بے وقت کی یہ بارش
آثار بتاتے ہیں کچھ ہونے ہی والا ہے
اردو کے لئے وعدہ بہلاوے پہ بہلاوا
لگتا ہے مصورؔ اب کچھ دال میں کالا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.