اس برس خوشوں کے دانے کھیت مل کر کھا گئے
اس برس خوشوں کے دانے کھیت مل کر کھا گئے
سیپیاں باقی رہیں موتی سمندر کھا گئے
اب فضا میں ڈھونڈتے رہیے وہ پیکر اب کہاں
کیسے کیسے دل نشیں چہروں کو منظر کھا گئے
پار جو اترے وہی اپنی کہانی کہہ سکے
کون جانے کشتیاں کتنی سمندر کھا گئے
بھیڑ میں جب تک رہے شامل رہے محفوظ ہم
بھیڑ سے بچ کر ذرا نکلے تو پتھر کھا گئے
جن کو قسمت نے بنایا بن گئے وہ کچھ سے کچھ
کیا کریں وہ جن کی تدبیریں مقدر کھا گئے
اب خدا جانے مسیحا کس لیے خاموش ہیں
شور تو یہ ہے کہ بیماروں کو بستر کھا گئے
احتیاطوں پر بھی افضلؔ لغزشیں ہیں ناگزیر
ہر قدم پر دیکھتے چلتے بھی ٹھوکر کھا گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.