اس درجہ ہے کیوں مجھ پہ عنایت کوئی پوچھے
اس درجہ ہے کیوں مجھ پہ عنایت کوئی پوچھے
کیا اب ہے مرے سر کی ضرورت کوئی پوچھے
کیا ہو گئی آپس کی محبت کوئی پوچھے
کب لٹ گئی اس شہر کی حرمت کوئی پوچھے
کیا صرف خدا ہی کو خدا کہتے ہیں یہ لوگ
کیوں ڈھائی ہے ان لوگوں پہ آفت کوئی پوچھے
ایوان سیاست کے جھروکوں سے پلٹ کر
مجھ سے تو مرے دیس کی حالت کوئی پوچھے
معبود کے بندوں کی بلی چڑھتی ہے دن رات
کیا ایسے بھی ہوتی ہے عبادت کوئی پوچھے
کب تک یہاں یہ مصر کا بازار لگے گا
مجھ سے بھی تو آخر مری قیمت کوئی پوچھے
صحرا میں کوئی دیکھے مرے صبر کی وسعت
دریا سے مری پیاس کی شدت کوئی پوچھے
جو صبح کے تارے کی طرح ڈوب رہا ہو
کاش اس سے اندھیروں کی مسافت کوئی پوچھے
جب وقت کو مٹھی میں جکڑ ہی نہیں سکتے
کیوں کرتے ہوں لمحوں کی حفاظت کوئی پوچھے
مغرب میں ہیں خود ہاتھ ہیں مشرق کی کلوں پر
ان نفس کے بندوں سے جسامت کوئی پوچھے
ہر سمت سے ہے صرف نمک پاشوں کی یلغار
مجھ سے مرے زخموں کی ملاحت کوئی پوچھے
ہر چیز دکھا دیتے ہیں یہ آنکھوں کے روزن
کب چھپتی ہے اندر کی کدورت کوئی پوچھے
جس پیڑ کے سائے میں زمیں رہتی ہے ٹھنڈی
اس سے کبھی سورج کی تمازت کوئی پوچھے
ہر شخص ہی بیمار ہے اس شہر میں نقویؔ
کس کس سے بھلا اس کی طبیعت کوئی پوچھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.