اس دھمک سے تو اگر پاؤں رکھے گا مجھ میں
اس دھمک سے تو اگر پاؤں رکھے گا مجھ میں
پھر کوئی چشمہ نیا پھوٹ بہے گا مجھ میں
کیوں نہ کچھ شور اٹھاؤں کہ وہ خاموش مزاج
بے ارادہ ہی سہی دھیان تو دے گا مجھ میں
گھر میں چلتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کوئی سایہ
آ کے ٹکرائے گا اور آ ہی بسے گا مجھ میں
اس قدر تنگ ہے دل اپنی پریشانی سے
سیر اچھی ہے مگر کون رہے گا مجھ میں
وقت جھاڑے گا نئے ہجر کے موسم کا شجر
اور اک لمحہ کوئی آن گرے گا مجھ میں
میرے نازک مری مٹی پہ بہت رقص نہ کر
دھیان کی رت ہے کوئی پھول کھلے گا مجھ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.