اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح
اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح
پھول پھینکا بھی مری سمت تو پتھر کی طرح
اس کے لب کو مرے لب رہ گئے چھوتے چھوتے
میں بھی ناکام چلا آیا سکندر کی طرح
رنگ سورج کا سر شام ہوا جاتا ہے زرد
اس کا بھی گھر نہ ہو ویران مرے گھر کی طرح
درد اس عہد کی میراث ہے ڈرنا کیسا
درد کو اوڑھ لیا کرتے ہیں چادر کی طرح
لوگ ہر لمحہ بدلتے ہیں نظریے اپنے
ذہن انساں بھی طوائف کے ہے بستر کی طرح
اب کی یورش میں کہیں گر ہی نہ جائے یہ فصیل
شور رہتا ہے مرے دل میں سمندر کی طرح
کیسا اس عہد میں پیمان وفا لوگ اب تو
دوست ہر سال بدلتے ہیں کلینڈر کی طرح
لفظ آتے ہی مرے لب پہ لرز جاتے ہیں
حال دل سنتے ہیں اب وہ کسی افسر کی طرح
وہی پابندئ اوقات وہی معمولات
زندگی گھر میں بسر ہوتی ہے دفتر کی طرح
ہو گیا خاک نشیں پر یہ جھکائے نہ جھکا
کسی سر میں بھی نہ سودا ہو مرے سر کی طرح
انجمؔ اس عہد میں ٹوٹے ہوئے دل کے رشتے
جوڑنے پر بھی ہیں ادھڑے ہوئے کالر کی طرح
- کتاب : Libas-e-zakhm (Pg. 84)
- Author : Badruddin Ahmed Khan
- مطبع : Anjum Irfani (1984)
- اشاعت : 1984
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.