اس قدر ہجر کے دھاگوں سے نکل آیا تھا
اس قدر ہجر کے دھاگوں سے نکل آیا تھا
میں تری یاد کے ریشوں سے نکل آیا تھا
ٹیس اٹھی تھی کہیں زیر زمیں اور ادھر
شہر کا شہر مکانوں سے نکل آیا تھا
رات خاموشی مرے جسم میں یوں پھیلی تھی
لمس کا شور بھی کانوں سے نکل آیا تھا
میں نے پھینکا تھا اسے طیش میں آ کر لیکن
اشک تصویر کی آنکھوں سے نکل آیا تھا
میں نے اک پیڑ کے سائے میں دعا مانگی تھی
اور پرندہ مری پوروں سے نکل آیا تھا
اس نے آواز کی تختی پہ مرا نام لکھا
اور میں لفظ کے ہونٹوں سے نکل آیا تھا
میں نے قرطاس پہ رکھی تھی فقط آنکھ منیرؔ
خواب تحریر کی درزوں سے نکل آیا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.