اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی کا
اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی کا
دوسرا نام ہے وہ بھی مری تنہائی کا
کیا چھپے راز الٰہی دل شیدائی کا
عرصۂ حشر تو بازار ہے رسوائی کا
جان لے جائے گا آنا شب تنہائی کا
کون اب روکنے والا ہے مری آئی کا
خوگر رنج و بلا حشر کے دن کیا خوش ہوں
کہ وہ مال آج ہوا ہے شب تنہائی کا
زندہ ہے نام شہادت کا اسی کے دم سے
تیرے کشتہ نے کیا کام مسیحائی کا
ہر گلی کوچے میں پامال اسے ہو جانا
دل ہے یا نقش قدم ہے کسی ہرجائی کا
اس ادب سے تہہ شمشیر تڑپنا اے دل
کہ گماں تیری تپش پر ہو شکیبائی کا
فتنے بھی قاعدے سے اٹھتے ہیں جب اٹھتے ہیں
کیا سلیقہ ہے تمہیں انجمن آرائی کا
وہ یہ کہتے ہیں مرا صبر پڑے گا تجھ پر
اب مجھے رنج نہیں اپنی شکیبائی کا
کیا غرض ہے مری تقدیر کو مجھ سے پوچھے
آبرو کا ہے طلب گار کہ رسوائی کا
واں شب وعدہ ملی پاؤں میں مہندی اس نے
یاں کلیجا کوئی ملتا ہے تمنائی کا
رات بھر شمع رہی ہجر میں وہ بھی خاموش
ملتجی تھا تری تصویر سے گویائی کا
سر مرا کاٹ کے دہلیز پر اپنی رکھ دو
شوق باقی ہے ابھی ناصیہ فرسائی کا
یوں نہ مقبول ہوا ہوگا کسی کا سجدہ
بت کو ارمان رہا میری جبیں سائی کا
ہو گیا پرتو رخسار سے کچھ اور ہی رنگ
میں نے منہ چوم لیا اس کے تماشائی کا
تھم گئے جم گئے آنکھوں میں لہو کے قطرے
خون ظاہر ہے مرے صبر و شکیبائی کا
بن گیا داغ جگر مہر قیامت اے داغؔ
پر ابھی رنگ وہی ہے شب تنہائی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.