اس طرح میں اسے بھلاتا ہوں
پتھروں پر لکھا مٹاتا ہوں
تاکہ اس زندگی کو ڈر نہ لگے
موت کے فائدے گناتا ہوں
روز مرتا ہوں اپنے اندر میں
روز اک لاش میں اٹھاتا ہوں
درد میں کچھ کمی سی لگتی ہے
زخم پر زخم جب لگاتا ہوں
سانس جاتی ہے لے کے دور مجھے
سانس آتی ہے لوٹ آتا ہوں
وصل کا تجربہ نہیں ہے مجھے
ہجر کی شاعری سناتا ہوں
رقص کرتی ہیں گمشدہ یادیں
آج سب آئنہ بجھاتا ہوں
جانتا ہوں کہ در کھلیں گے نہیں
بے سبب چابیاں گھماتا ہوں
پہلے کرتا ہوں خود اسے ناراض
اور پھر دیر تک مناتا ہوں
دھڑکنوں شور کم کرو کچھ دیر
میں بس ان کو بلا کے لاتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.