اس طرح مصائب کا کر کے سد باب آئے
اس طرح مصائب کا کر کے سد باب آئے
خواہشات کو اپنی ہم کہیں پہ داب آئے
یہ مرا جنوں تھا جو ہار کر نہیں بیٹھا
ورنہ زندگانی میں غم تو بے حساب آئے
ایک سنگ دل مجھ پر مائل کرم ہے آج
حیرتی ہوں کیکر پر کس طرح گلاب آئے
میری کامیابی پر جشن کیوں منائے گا
میرا نام سنتے ہی جس کو پیچ و تاب آئے
آپ کی محبت کا آج ہو گیا قائل
ایک پھول کے بدلے سنگ بے حساب آئے
مشکلیں ہوئیں آساں راستے ہوئے دشوار
کٹ چکی سروں کی فصل اب تو انقلاب آئے
با کمال تھے عنبرؔ پھر بھی ہم رہے گمنام
بے ہنر کے حصے میں سیکڑوں خطاب آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.