اس طرح میر کا دیوان مجھے کھینچتا ہے
اس طرح میر کا دیوان مجھے کھینچتا ہے
گو کوئی صاحب عرفان مجھے کھینچتا ہے
جس طرف کچھ بھی نہیں ملتا بجز رسوائی
اس طرف کیوں دل نادان مجھے کھینچتا ہے
روز خوابوں میں کسی ساحل دریا کی طرف
ایک بھولا ہوا ارمان مجھے کھینچتا ہے
دفعتاً دل سے تری یاد لپٹ جاتی ہے
اور اک گوشۂ ویران مجھے کھینچتا ہے
اب تو یہ حال ہے تھک کر میں کہیں چھاؤں میں
بیٹھ جاتا ہوں تو سامان مجھے کھینچتا ہے
کچھ بھی معلوم نہیں اس کے سوا اب مجھ کو
صرف اک جادۂ انجان مجھے کھینچتا ہے
چلتا ہے موت کا سایہ بھی مرے ساتھ اثرؔ
اور بچنے کا بھی امکان مجھے کھینچتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.