اس ترک تعلق کا عجب مجھ پر اثر تھا
اس ترک تعلق کا عجب مجھ پر اثر تھا
خود ہی وہ جلا ڈالا جو یادوں کا شجر تھا
صحرا میں گلابوں کو اگانے کی تمنا
یہ خواب انوکھا سا مرے پیش نظر تھا
وہ لوٹ کے اک دن جو پشیماں چلا آیا
میرے ہی وہ جذبوں کی صداقت کا سحر تھا
وہ میری دریدوں میں بھی موجود رہا ہے
میں کیسے بھلا دیتی نہیں اس سے مفر تھا
باقی رہا کانٹوں میں لہو ہونے کے با وصف
خودداری کا احساس مرا کیسا نڈر تھا
لائق ہی نہ تھا کوئی مکیں دل میں جو رہتا
ورنہ یہ کشادہ تو بہت رہنے کو گھر تھا
جن کرچیوں سے میرا بدن آج لہو ہے
وہ ٹوٹ کے بکھرا مرا ہی شیش نگر تھا
دل دھڑکا قدم ٹھٹھکے پلٹ کر ہوا معلوم
جس نے یہ صدا دی تھی ترا راہ گزر تھا
اک اندھا ارادہ لیے جاتا ہے کسی سمت
جب ٹھہرے تو دیکھا نہ سفر تھا نہ حضر تھا
اس لذت تخلیق کی کاوش میں پھنسا جو
نکلا نہ کبھی اس سے یہ ایسا ہی بھنور تھا
منزل نہ تھی کوئی نہ ہی رستہ نظر آتا
یہ سب اسی تفریق و تعصب کا ثمر تھا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 303)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.