اس واسطے کہ دل ہے مسلسل عذاب میں
اس واسطے کہ دل ہے مسلسل عذاب میں
ہم پی رہے ہیں زہر ملا کر شراب میں
مدہوش اس قدر ہوں شب ماہتاب میں
ڈوبے ہوئے ہیں جیب و گریباں شراب میں
اے کاش ان کو پھر تری آواز مل سکے
نغمے تڑپ رہے ہیں جو میرے رباب میں
وہ شخص تھا کبھی جو رگ جاں سے بھی قریب
اب وہ کسی خیال میں ہے اور نہ خواب میں
کچھ عقل و ہوش و فہم و فراست میں کھو گئے
کچھ دوست خود کو ڈھونڈ رہے ہیں شراب میں
کیوں مجھ پہ مہرباں ہے غم زیست ان دنوں
کیا ایسی بات ہے مرے حال خراب میں
اک پختہ طبع رند خرابات ہے کنولؔ
واعظ جو چاہے عیب نکالیں شراب میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.