عشق کا گھاؤ جان میں رکھ کر بھول گئی
عشق کا گھاؤ جان میں رکھ کر بھول گئی
خود کو آتش دان میں رکھ کر بھول گئی
نرگس کے دو پھول اٹھا کر پھینک دئے
اور آنکھیں گلدان میں رکھ کر بھول گئی
کچھ آنسو تو آنکھوں میں چھپ جاتے ہیں
کچھ آنسو مسکان میں رکھ کر بھول گئی
گھونسلہ تھا اور شوخ ہوا کی ٹھوکر تھی
تنکے میں طوفان میں رکھ کر بھول گئی
جس کی خاطر شاعری کرتی رہتی تھی
اب اس کو دیوان میں رکھ کر بھول گئی
کمرے میں کچھ سائے ناچتے رہتے ہیں
سورج روشن دان میں رکھ کر بھول گئی
کیا کھویا کیا پایا کچھ مت پوچھ سکھی
جیون اک ہذیان میں رکھ کر بھول گئی
سانسوں کی مزدوری میں جو عشق ملا
اک شاہی فرمان میں رکھ کر بھول گئی
جلتی دھوپ میں چاند کا تحفہ کیا کرتی
شاید میں دالان میں رکھ کر بھول گئی
سورج چاند بھی جا کر لوٹ ہی آتے ہیں
عمر اسی امکان میں رکھ کر بھول گئی
پھول سے رشتے پتی پتی بکھرے تھے
پت جھڑ رت سامان میں رکھ کر بھول گئی
اس لہجے کی اوس میں جو آنچل بھیگا
اک ٹوٹے پیمان میں رکھ کر بھول گئی
آج سحرؔ ان دو ہنستی ہوئی آنکھوں کو
یادوں کے جزدان میں رکھ کر بھول گئی
- کتاب : Word File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.