عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا
عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا
ہے جہاں اس کا عمل وہ شہر بھی ہے پٹ پڑا
عاشقوں کے قتل کو کیا تیز ہے ابرو کی تیغ
ٹک ادھر جنبش ہوئی اور سر ادھر سے کٹ پڑا
اشک کی نوک مژہ پر شیشہ بازی دیکھیے
کیا کلائیں کھیلتا ہے بانس پر یہ نٹ پڑا
شاید اس غنچہ دہن کو ہنستے دیکھا باغ میں
اب تلک غنچہ بلائیں لیتا ہے چٹ چٹ پڑا
دیکھ کر اس کے سراپا کو یہ کہتی ہے پری
سر سے لے کر پاؤں تک یاں حسن آ کر پھٹ پڑا
کیا تماشا ہے کہ وہ چنچل ہٹیلا چلبلا
اور سے تو ہٹ گیا پر میرے دل پر ہٹ پڑا
کیا ہوا گو مر گیا فرہاد لیکن دوستو
بے ستوں پر ہو رہا ہے آج تک کھٹ کھٹ پڑا
ہجر کی شب میں جو کھینچی آن کر نالے نے تیغ
کی پٹے بازی ولے تاثیر سے ہٹ ہٹ پڑا
دل بڑھا کر اس میں کھینچا آہ نے پھر نیمچہ
اے نظیرؔ آخر وہ اس کا نیمچہ بھی پٹ پڑا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.