عشق کی آسودگی کو اور کیا درکار تھا
عشق کی آسودگی کو اور کیا درکار تھا
گیسوؤں کی چھاؤں تھی یا سایۂ دیوار تھا
در حقیقت وہ قریب جلوہ گاہ یار تھا
جس کی آنکھوں میں مذاق حسرت دیدار تھا
آج وہ کیوں کھا رہا ہے در بدر کی ٹھوکریں
تخت عالم کا جو کل تک مالک و مختار تھا
ماورائے عیش تھا جب آدمیت کا وجود
کس قدر بے داغ وہ آئینۂ کردار تھا
ذوق نظارہ کی قوت سلب ہو کر رہ گئی
جلوہ گاہ ناز پر کیا پردۂ اسرار تھا
تا قیامت جس کے نقش پا رہیں گے ضو فشاں
فخر ہے ہم کو وہ اپنا قافلہ سالار تھا
مغفرت فرمائے مولیٰ صادقؔ مرحوم کی
وہ مرا استاد انورؔ اک بڑا فن کار تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.