عشق کی منزل میں اب تک رسم مر جانے کی ہے
عشق کی منزل میں اب تک رسم مر جانے کی ہے
حسن کی محفل میں اب بھی خاک پروانے کی ہے
آرزوئے شوق کیف مستقل پانے کی ہے
دل کی ہر تخریب میں تعمیر ویرانے کی ہے
مہر قبل شام کی رفتار مستانے کی ہے
مطلع رنگ شفق میں شان میخانے کی ہے
شمع محفل بھی نہیں اور اہل محفل بھی نہیں
نازش محفل سحر تک خاک پروانے کی ہے
ہو سکے گی کس طرح صرف قلم روداد دل
اب بھی زیر غور سرخی غم کے افسانے کی ہے
کیا سکون کیف دے رنگین ماحول قفس
ہر گھڑی پیش نظر تصویر کاشانے کی ہے
چند لمحوں کو چلے آنا مرے مرنے کے بعد
کیا ضرورت جیتے جی تکلیف فرمانے کی ہے
اور کیا ہوتا زیادہ اس سے احساس وفا
شمع کے دامن میں کوئی شرط پروانے کی ہے
بندگی مشروط ہو سکتی نہیں اہل نظر
اس میں کوئی شرط کعبے کی نہ بت خانے کی ہے
داستان آرزو ہے نغمہ عہد شباب
اس کی سرخی پر ضرورت غور فرمانے کی ہے
مرکز اہل نظر ہے زیبؔ نیرنگ خیال
پھر کمی کیوں منظر فطرت پہ چھا جانے کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.