عشق کو پاس وفا آج بھی کرتے دیکھا
عشق کو پاس وفا آج بھی کرتے دیکھا
ایک پتھر کے لیے جی سے گزرتے دیکھا
پست غاروں کے اندھیروں میں جو لے جاتی ہیں
وہ اڑانیں بھی تو انسان کو بھرتے دیکھا
جبھی لائی ہے صبا موسم گل کی آہٹ
برگ افسردہ ہوئے شاخوں کو ڈرتے دیکھا
تری دہلیز پہ گردش کا گزر کیا معنی
تجھ کو جب دیکھا ہے کچھ بنتے سنورتے دیکھا
بے صدا ہی سہی پر سنگ صفت ہیں لمحے
ان کی آغوش میں ہر شے کو بکھرتے دیکھا
جو بھی بیتی سر فرہاد پہ بیتی نجمیؔ
کسی پرویزؔ کو تیشے سے نہ مرتے دیکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.