عشق میں ہارا ہوا ہوں کامرانی کچھ نہیں
عشق میں ہارا ہوا ہوں کامرانی کچھ نہیں
میرے حصہ میں صنم کی مہربانی کچھ نہیں
چھوڑ کر تتلی گئی ہے جب سے دل کے باغ کو
دل میں بس ویرانیاں ہیں رت سہانی کچھ نہیں
کشتی سے بچھڑا جو دریا اب تلک صدمے میں ہے
جم گئی ہے برف اس میں اور روانی کچھ نہیں
آئنے کو حیرتیں ہیں حال میرا دیکھ کر
داغ چہرے پہ ہے میرے نوجوانی کچھ نہیں
خط جلائے میں نے سارے جو دئیے تھے یار نے
پاس میرے اس کی صاحب اب نشانی کچھ نہیں
خلوتوں کے سائے میں ہوں یار اک مدت سے میں
چار سو ہے بس اداسی شادمانی کچھ نہیں
ڈاکیا ہی تھے کبوتر پہلے موبائل نہ تھا
باتیں ساری خط سے کی تھیں منہ زبانی کچھ نہیں
بن ترے کیسے کہوں اب کس طرح بتلاؤں میں
سانس چلتی ہے فقط یہ زندگانی کچھ نہیں
مدتیں گزری ہیں سارقؔ یار کو دیکھے ہوئے
کیا کریں لب سے بیاں اب خوش بیانی کچھ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.