بستر دھول اور خوشبو وہی پرانی ہے
بستر دھول اور خوشبو وہی پرانی ہے
اس کمرے کی اپنی ایک کہانی ہے
مدّت بعد کہیں سناٹا بولا ہے
یہ آہٹ کتنی جانی پہچانی ہے
دو جلتی بجھتی آنکھیں اور میں اور تم
بچپن ہے اور رات ہے اور کہانی ہے
سیر کرائے روز اک اڑن کھٹولے میں
یاد بھی جیسے میری بوڑھی نانی ہے
خود کو میں نے قید کیا ہے کمرے میں
میں نے ہی کھڑکی پر چادر تانی ہے
آنکھ پہ پٹی باندھ کے بھی چل سکتی ہے
بیٹی میری مجھ سے بہت سیانی ہے
چڑیوں کو تو شور مچانا آتا ہے
پیڑ کو لیکن اپنی ریت نبھانی ہے
بچوں سے تو ہم کو شکوہ رہتا ہے
آگے کس نے بات بڑوں کی مانی ہے
دریا ہے تو اک دن رستہ بدلے گا
کب دریا نے بات کسی کی مانی ہے
ان رستوں كا اپنا ایک اندازہ ہے
ان گلیوں کی اپنی ایک نشانی ہے
اب یہ دل بھی کتنا بوجھ سہارے گا
مان بھی جاؤ کشتی بہت پرانی ہے
موسم شاید آخری ہچکی لیتا ہے
یے جو لہو کے دریا میں طغیانی ہے
سر ٹکراتا رہتا ہے دیواروں سے
میرے اندر بھی کوئی زندگانی ہے
عشق میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا
مت پوچھو پیارے قصہ طولانی ہے
شام کے ساتھ نہ جانا تنہا میلے میں
کھو جاؤ گے شام بہت سیلانی ہے
آگ بچہ کر رکھنا اپنے حصے کی
آنے والی رات بڑی برفانی ہے
تیری خاطر کتنا خود کو بدل دیا
اپنے اوپر مجھ کو بھی حیرانی ہے
- کتاب : ایک دیا اور ایک پھول
- Author : عشرت آفریں
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.