اسی لیے تجھے دیتا ہوں داد نفرت کی
اسی لیے تجھے دیتا ہوں داد نفرت کی
کہ تو نے عشق سے پر اعتماد نفرت کی
کوئی نہ دل سے کسی کو نکال کر پھینکے
کبھی نہ پوری ہو مولا مراد نفرت کی
کبھی کبھی وہ مجھے پیار اتنا دیتا تھا
کبھی کبھی بہت آتی تھی یاد نفرت کی
گلاب سوکھ گئے ہیں ہوئے ہیں خار ہرے
ہوس نے پیار میں ڈالی ہے کھاد نفرت کی
یہ دوست برسر پیکار ہونے لگ گئے ہیں
تو وجہ بننے لگی ہے فساد نفرت کی
اس ایک شخص کو چاہوں گا تا دم آخر
وہ جس نے مجھ سے محبت کے بعد نفرت کی
نہ کوئی تیر نہ سازش نہ تہمتیں نہ حسد
کسی نے مجھ سے بڑی بے سواد نفرت کی
کہ اس کا درد محبت کے دکھ سے تھوڑا ہے
یہ بات اچھی ہے اس نا مراد نفرت کی
میں اس لیے بھی محبت سے باز آ گیا تھا
کہ اس کے شہر میں ملتی تھی داد نفرت کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.