Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسی قصور میں شانوں سے سر اترتے رہے

نعیم صدیقی

اسی قصور میں شانوں سے سر اترتے رہے

نعیم صدیقی

MORE BYنعیم صدیقی

    اسی قصور میں شانوں سے سر اترتے رہے

    وہ کیسے لوگ تھے جو پھر بھی عشق کرتے رہے

    صفیں بندھی رہیں کانٹوں کی راہ الفت میں

    گزرنے والے مگر قافلے گزرتے رہے

    تمہاری آنکھوں کی وہ موج خیز جھیلوں میں

    سفینے ڈوب کے امید کے ابھرتے رہے

    نظام نور ہے محکم شب سیہ کے خلاف

    ستارے ڈوبے تو سورج یہاں ابھرتے رہے

    انہی کو بھوک سے ہم نے نڈھال پایا ہے

    ہوس کے بندے کہ جو کھیت کھیت چرتے رہے

    قفس بھی ایک نئے طرز کا نشیمن تھا

    ہمارے باغ کے بلبل تو یوں ہی ڈرتے رہے

    لیا تھا نام ترا اور سزائے دار ملی

    پہنچ کے دار پہ پھر تجھ کو یاد کرتے رہے

    ترے بغیر یہ مانا کہ اضطراب رہا

    ترے بغیر بھی لمحات غم گزرتے رہے

    شکاریوں کو ہمیشہ شکار ملتا رہا

    ہمیشہ مکر کے دانے یہاں بکھرتے رہے

    جو لوگ تل گئے مرنے پہ جی گئے ہیں وہی

    جو لوگ موت سے ڈرتے رہے وہ مرتے رہے

    ادھر کسی کا تھا شیرازۂ سکوں درہم

    کسی کے گیسوئے مشکیں ادھر سنورتے رہے

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے