اسی قصور میں شانوں سے سر اترتے رہے
اسی قصور میں شانوں سے سر اترتے رہے
وہ کیسے لوگ تھے جو پھر بھی عشق کرتے رہے
صفیں بندھی رہیں کانٹوں کی راہ الفت میں
گزرنے والے مگر قافلے گزرتے رہے
تمہاری آنکھوں کی وہ موج خیز جھیلوں میں
سفینے ڈوب کے امید کے ابھرتے رہے
نظام نور ہے محکم شب سیہ کے خلاف
ستارے ڈوبے تو سورج یہاں ابھرتے رہے
انہی کو بھوک سے ہم نے نڈھال پایا ہے
ہوس کے بندے کہ جو کھیت کھیت چرتے رہے
قفس بھی ایک نئے طرز کا نشیمن تھا
ہمارے باغ کے بلبل تو یوں ہی ڈرتے رہے
لیا تھا نام ترا اور سزائے دار ملی
پہنچ کے دار پہ پھر تجھ کو یاد کرتے رہے
ترے بغیر یہ مانا کہ اضطراب رہا
ترے بغیر بھی لمحات غم گزرتے رہے
شکاریوں کو ہمیشہ شکار ملتا رہا
ہمیشہ مکر کے دانے یہاں بکھرتے رہے
جو لوگ تل گئے مرنے پہ جی گئے ہیں وہی
جو لوگ موت سے ڈرتے رہے وہ مرتے رہے
ادھر کسی کا تھا شیرازۂ سکوں درہم
کسی کے گیسوئے مشکیں ادھر سنورتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.