اتنا ٹھہرا ہوا ماحول بدلنا پڑ جائے
اتنا ٹھہرا ہوا ماحول بدلنا پڑ جائے
باہر اپنے ہی کناروں سے اچھلنا پڑ جائے
اتنا مانوس بھی ہونے کی ضرورت کیا تھی
کبھی اس خواب سے ممکن ہے نکلنا پڑ جائے
چھوڑ جائیں جو تمہارے سبھی ہوتے سوتے
اور کبھی ساتھ ہمارے تمہیں چلنا پڑ جائے
دور سے دیکھ کے ہم جس کو ڈرا کرتے ہیں
کیا مزہ ہو جو اسی آگ میں جلنا پڑ جائے
کیا خبر جس کا یہاں اتنا اڑاتے ہیں مذاق
خود ہمیں بھی کبھی اس رنگ میں ڈھلنا پڑ جائے
دل کی یہ آب و ہوا اتنی مخالف ہے اگر
اور انہی موسموں میں پھولنا پھلنا پڑ جائے
کون کہہ سکتا ہے بدلے ہوئے آثار کے ساتھ
دیکھا دیکھی ہی طبیعت کو سنبھلنا پڑ جائے
اعتبار ایک دفعہ اور بھی کرتے ہوئے پھر
انہیں وعدوں کے کھلونوں سے بہلنا پڑ جائے
شعلہ مجبور ہو دریا پہ مچلنے کو ظفرؔ
کسی دن دشت سے چشمے کو ابلنا پڑ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.