اتنی نہ اپنے نام کی ہر سو دہائی دے
اتنی نہ اپنے نام کی ہر سو دہائی دے
جتنا تجھے میں سن سکوں اتنا سنائی دے
مجھ کو کسی بھی حال میں خلقت کے ساتھ رکھ
جن کو خدائی چاہیے ان کو خدائی دے
سانسوں کی ڈور کاٹ دے افلاک چاک کر
محبوس دل کو خیمۂ جاں سے رہائی دے
جو چاہتا ہو درد کے اس پار دیکھنا
اس کو رسائی روزن زخم جدائی دے
دیکھے گا کوئی تیرگی میں دل بجھا ہوا
جلتا ہوا چراغ تو سب کو دکھائی دے
ہم انتہائے عشق کے راہی تھے یاد کر
اب رنج دے رہا ہے تو پھر انتہائی دے
میں تجھ میں رہ کے خود سے بہت دور ہو گیا
اے یاد یار اب مجھے مجھ تک رسائی دے
اس کا وجود میرے تصور کا معجزہ
جیسا میں اس کو سوچ لوں ویسا دکھائی دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.