اضطراب دل بیمار سے ڈر لگتا ہے
اضطراب دل بیمار سے ڈر لگتا ہے
نبض کی سرعت رفتار سے ڈر لگتا ہے
حسن کے عشوۂ طرار سے ڈر لگتا ہے
لغزش فطرت خوددار سے ڈر لگتا ہے
منزل حشر بہت دور سہی پر اب بھی
پرسش بخت سیہ کار سے ڈر لگتا ہے
اک المناک فسانہ ہے جنون الفت
جس کی تفسیر کے اظہار سے ڈر لگتا ہے
جادۂ ہوش سے ہٹ جائیں نہ مے کش کے قدم
جام کی گرمئ رفتار سے ڈر لگتا ہے
یا تو ناموس محبت پہ تھا مرنا برحق
یا تو ذکر رسن و دار سے ڈر لگتا ہے
رخ بدل دے نہ محبت کا یہ آشفتہ سری
اعتبار نگہ یار سے ڈر لگتا ہے
یہ عقیدت ہی کہیں درپئے آزار نہ ہو
شرف پا بوسیٔ اغیار سے ڈر لگتا ہے
توڑ ڈالیں نہ کہیں آپ مرا شیشۂ دل
آپ کی شومیٔ گفتار سے ڈر لگتا ہے
غم و آلام سے اس درجہ سراسیمہ ہوں
کہ مجھے عکس رخ یار سے ڈر لگتا ہے
بھول جاؤں نہ کہیں اپنی ہی ہستی کا مقام
آپ کی چشم فسوں بار سے ڈر لگتا ہے
بد گمانی ہوئی اس درجہ دخیل فطرت
ان کو اب سایۂ دیوار سے ڈر لگتا ہے
پھر برانگیختہ ہو جائیں نہ جذبات نہاں
شعلہ سامانیٔ رخسار سے ڈر لگتا ہے
باہمی ربط میں بن جائے نہ حد فاصل
اختلافات کی دیوار سے ڈر لگتا ہے
کچھ تو بدلے ہوئے حالات سے وحشت ہے عظیمؔ
کچھ تو بگڑے ہوئے آثار سے ڈر لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.