اضطراب قلب ہے اور عشق کا آغاز ہے
ابتدائے نغمہ مانوس شکست ساز ہے
کس کی خلوت گاہ میں سامان سوز و ساز ہے
آج پروانوں کی بھرائی ہوئی آواز ہے
دہر سے کعبہ سے بڑھ کر قلب کا اغراض ہے
وہ پرستش گاہ ہے یہ جلوہ گاہ ناز ہے
اضطراب عشق بھی ہے اور فراق دوست بھی
بزم الفت میں دو گونہ لطف سوز و ساز ہے
غیر کا محتاج کب ہے اس کی الفت کا مریض
خود دیا ہے درد دل خود ہی وہ چارہ ساز ہے
ہو گیا بیتاب دل جلوے کسی کے دیکھ کر
کیا ادائے دل ربا کیا دل نشیں انداز ہے
وہ بلاتے ہیں مجھے میں ان سے حیلہ کیا کروں
ہے سفر لمبا طبیعت آج کل ناساز ہے
بے نیازی دیکھ کر اس کی بڑھا ذوق نیاز
اب جبین عشق ہے اور آستان ناز ہے
کس کو دیکھے گا دکھائے گا وہ کس کس کو جمال
خود ہی وہ جلوہ ہے اور خود ہی تجلی ساز ہے
سنگ اسود کا ہے اک بت سنگ مرمر کا ہے ایک
برہمن یہ تو بتا کس بت پہ تجھ کو ناز ہے
جانتا ہوں اول روز ازل سے آج تک
اس کو مجھ سے ہے محبت مجھ کو اس پر ناز ہے
عزت و عظمت پہ دنیا کی کروں میں کیوں غرور
جو ملا در سے ترے کافی وہی اغراض ہے
راز بن کر ہو جو پنہاں ہے وہ افسانہ ترا
اور جو بن جائے افسانہ وہ میرا راز ہے
کر دیا گستاخ آخر اس کی رحمت نے مجھے
جس کی رحمت پر عمرؔ ہر وقت مجھ کو ناز ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.