عزت انہیں ملی وہی آخر بڑے رہے
عزت انہیں ملی وہی آخر بڑے رہے
جو خاک ہو کے آپ کے در پر پڑے رہے
اے دوست مغتنم ہیں وہ مردان با وقار
عسرت میں بھی جو آن پہ اپنی اڑے رہے
پایاب ہو کے سیل نے ان کے قدم لیے
منجدھار میں جو پاؤں جمائے کھڑے رہے
پڑتی نہیں ہر ایک پہ اس کی نگاہ ناز
ساقی کے آستاں پہ ہزاروں پڑے رہے
اپنوں کی تلخ گوئی کی لذت نہ پوچھیے
بھالے سے عمر بھر رگ جاں میں گڑے رہے
مانند سنگ میل دکھائی ہر اک کو راہ
لیکن خود اپنے پاؤں زمیں میں گڑے رہے
ظالم سے ایک بوسے پہ برسوں رہی ہے ضد
آخر تک اپنی بات پہ ہم بھی اڑے رہے
شاید کہ ملتفت ہو کوئی شہسوار ناز
کس آرزو سے ہم سر منزل کھڑے رہے
فتنے بہت ہیں بت کدہ و خانقاہ میں
اچھے رہے جو دشت جنوں میں پڑے رہے
واصفؔ کا انتظار تھا صحرا میں بعد قیس
کانٹے بھی مدتوں یوں ہی پیاسے پڑے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.