جا رہے تھے لوگ مجھ کو چھوڑ کر جانے دئے
جا رہے تھے لوگ مجھ کو چھوڑ کر جانے دئے
پھر مری خلوت نے مجھ کو عمر بھر طعنے دئے
لٹ گئی اپنی متاع جاں تو اندازہ ہوا
خود ہمیں نے حق انہیں سب جانے انجانے دئے
کھاد پانی دے سکیں کب وقت دنیا نے دیا
الغرض گل خواہشوں کے ہم نے مرجھانے دئے
لطف ملتا تھا کبھی جب ہاتھ رکھتی تھی ہوا
زخم سہلاتی رہی وہ ہم نے سہلانے دئے
دل گنوایا نیند کھوئی کھو دیا چین و قرار
اک خطائے عشق کی اور کتنے جرمانے دئے
موت کی آغوش میں ہی نیند آئی پر سکوں
عشق تو نے کب ہمیں باہوں کے سرہانے دئے
واہ ساقی کیا نبھائی رسم اہل میکدہ
سب کو نظروں کے ہمیں شیشے کے پیمانے دئے
گر میں رو پڑتا تو میرے صبر کی توہین تھی
ضبط نے ہرگز نہ مجھ کو اشک چھلکانے دئے
مفلسی میں بھی رہا جذبوں پہ اپنے اختیار
کب مری غیرت نے مجھ کو ہاتھ پھیلانے دئے
کرب تنہائی اداسی زخم آنسو اضطراب
اے کرنؔ ہم کو محبت نے یہ نذرانے دئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.