جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا
جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا
دوست بچھڑا ہے ہر اک گام پہ کیسا کیسا
دل کا آتش کدہ ویران پڑا تھا کب سے
آنکھ سے بہنے لگا آگ کا دریا کیسا
اس پہ تو فصل خزاں مار چکی ہے شب خوں
موسم گل کے گزر جانے کا کھٹکا کیسا
چاند سے چہرے نظر آنے لگے ہیں کتنے
کھل گیا میری نگاہوں پہ دریچہ کیسا
جس میں اک اشک نہ ہو آنکھ کہاں ہے وہ آنکھ
بوند پانی کی نہ ہو جس میں وہ دریا کیسا
بے تحاشا جو بڑھی جاتی ہے سوئے گرداب
ناؤ نے دیکھ لیا اس میں کنارا کیسا
دیکھ محفل میں ہر اک آنکھ ہے نم یزدانیؔ
تو نے یہ چھیڑ دیا آج فسانہ کیسا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.