جادہ ہے عشق زیست سفر ہے چلے چلیں
جادہ ہے عشق زیست سفر ہے چلے چلیں
جب تک ملے نہ جلوۂ منزل بڑھے چلیں
وہ رزم گاہ زیست ہو یا کوئے یار ہو
اب کوئی رہ گزار بھی ہو جھومتے چلیں
کیا لوگ تھے جو راہ جنوں سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
اک عمر غم کی دھوپ میں چلنا ہے دو گھڑی
ان گیسوؤں کی چھاؤں میں بھی بیٹھتے چلیں
ہوگا کبھی نہ ختم یہ افسانۂ حیات
جب تک ہیں زندگی کا فسانہ کہے چلیں
پھیلائیں زندگی کا اجالا ہر ایک سو
بن کر چراغ شہر محبت جلے چلیں
آواز دے صبا کہ پکارا کرے بہار
ہر رہ گزر میں پھول کھلاتے چلے چلیں
ساحل تو مل ہی جائے گا ساحل کی فکر کیا
اک موج زندگی کے سہارے بہے چلیں
گزریں گے رہروان محبت ابھی پیامؔ
ہر راہ میں چراغ جلاتے چلے چلیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.