جاگتا رہتا ہوں اور کھڑکی کھلی رہتی ہے
جاگتا رہتا ہوں اور کھڑکی کھلی رہتی ہے
کیا خوشی ہے کہ مصیبت ہی پڑی رہتی ہے
اتنی دیواریں گرا کر بھی یہی دیکھا ہے
ایک دیوار مری رہ میں کھڑی رہتی ہے
باغ میں بکھرے ہوئے رنگ بہت ظالم ہیں
بعض گوشوں میں تو ویرانی پڑی رہتی ہے
ہجر میں وصل کے پھل پھول کھلے رہتے ہیں
شاخ بچھڑے ہوئے موسم سے بھری رہتی ہے
ایک ویرانہ ہے جو شہر کو کھا جاتا ہے
ایک بستی ہے جو جنگل میں بسی رہتی ہے
اب وہ خوش چہرہ سی خاتون کہاں پر ہوگی
فکر سی کوئی مرے جی کو لگی رہتی ہے
حد سے بڑھتی ہوئی وحشت بھی عجب شے ہے وفاؔ
میرے چہرے پہ کسی غم کی ہنسی رہتی ہے
موسم گریہ گزر جاتا ہے مقصود وفاؔ
میری دیوار پہ بارش کی نمی رہتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.