جال رگوں کا گونج لہو کی سانس کے تیور بھول گئے
جال رگوں کا گونج لہو کی سانس کے تیور بھول گئے
کتنی فنائیں کتنی بقائیں اپنے اندر بھول گئے
جنم جنم تک قید رہا اک بے معنی انگڑائی میں
میں ہوں وہ محراب جسے میرے ہی پتھر بھول گئے
جانے کیا کیا گیت سنائے گردش کی سرگوشی نے
بے چہرہ سیارے مجھ میں اپنا محور بھول گئے
بیتی ہوئی صدیوں کا تماشا آنے والے کل کا بھنور
آتے جاتے لمحے مجھ میں اپنا پیکر بھول گئے
اب بھی چاروں سمت ہمارے دنیائیں حرکت میں ہیں
ہم بھی بے دھیانی میں کیا کیا جسم کے باہر بھول گئے
دور کناروں کی ریتوں پر کھوج رہے ہیں آج ریاضؔ
کس کی سونی آنکھوں میں ہم اپنے سمندر بھول گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.