جام جمشید کا عالم ہے مرے سینے میں
دلچسپ معلومات
(نومبر 1942ء )
جام جمشید کا عالم ہے مرے سینے میں
بات پیدا ہی نہیں یہ کسی آئینے میں
آنکھ میں شکل تری نور ترا سینے میں
عکس آئینے کا پڑتا رہا آئینے میں
حیرتی صورت آئینہ بنا بیٹھا ہوں
کوئی صورت نظر آتی نہیں آئینے میں
کیجئے مجھ پہ ذرا اور بھی حیرت طاری
دیکھیے آپ مجھے بیٹھ کے آئینے میں
جانتا ہے کہ مئے تلخ ہے صہبائے حیات
حظ ہر اک پھر بھی اٹھاتا ہے اسے پینے میں
مرنے والوں سے ہوئی موت کی مشکل آساں
جینے والوں سے مدد کچھ نہ ملی جینے میں
نہیں ہوتا ہے رفو چاک مقدر ہرچند
پھر بھی مصروف ہے ہر ایک اسے سینے میں
مجھ سا محروم تمنا بھی نہ ہوگا کوئی
عمر گزری ہے خود اپنا ہی لہو پینے میں
سیر آنکھیں رہیں کیا لطف نیت بھر جائے
دیکھنے میں جو مزا ہے وہ نہیں پینے میں
آئینہ گر تری آئینہ گری جب دیکھوں
پشت آئینہ بھی آئینہ ہو آئینے میں
تیری صورت ہی ترے پیش نظر رکھتا ہے
نقص کیا خاک نکالے کوئی آئینے میں
شعر بن جائے مرے لب پہ جو نالہ آئے
درد شانے سے اتر آئے مرے سینے میں
دیکھنے والے بہر رنگ تجھے دیکھیں گے
کبھی آئینے سے باہر کبھی آئینے میں
طور پر حضرت موسیٰ نہ جنہیں دیکھ سکے
جلوہ فرما ہیں وہ انوار مرے سینے میں
حسن بندش ہی نہیں جوہر تاثیر بھی ہے
نہیں کیا کچھ مرے اشعار کے گنجینے میں
خون ہو جائے نہ طالبؔ کہیں خودداری کا
بال پڑ جائے نہ کوئی مرے آئینے میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.