جان سے جاتے رہے جان سے جانا نہ گیا
جان سے جاتے رہے جان سے جانا نہ گیا
دل گیا عشق میں پر دل کا لگانا نہ گیا
موت کے بعد بھی اک بوجھ اٹھا رکھا ہے
سر تو جانا ہی تھا پر حیف کہ شانا نہ گیا
کل فرشتوں نے بہت کھینچا پکڑ کر دامن
چھوڑ کر تجھ کو مگر تیرا دوانہ نہ گیا
آج بھی آ کے وہ آنکھوں میں چہک اٹھتا ہے
گلشن دل سے کبھی تیرا زمانہ نہ گیا
لے کے انگڑائی قیامت نے بدل دی دنیا
وقت کے لب سے مگر میرا فسانہ نہ گیا
اس طرح دونوں تعلق کا بھرم رکھتے رہے
روٹھنا اس کا بھی اپنا بھی منانا نہ گیا
اس کے ناخون کی رعنائی بتا دیتی ہے
اس کی عادت سے ابھی دل کا دکھانا نہ گیا
یہ الگ بات کے قدرت نے پلٹ دی بازی
فیصلہ عشق کے حق میں کبھی مانا نہ گیا
ابتدا سے یہ ہے دستور زمانہ کا ندیمؔ
دل کو سمجھا نہ گیا درد کو جانا نہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.