جانے عقب سے تیر تھا کس کی کمان کا
جانے عقب سے تیر تھا کس کی کمان کا
لیتے ہیں لوگ نام کسی مہربان کا
آشوب تشنگی میں یہ تسکیں بھی کم نہیں
احساں نہیں ہے سر پہ کسی سائبان کا
دل مصلحت پسند تھا شوق انتہا پرست
رستہ میں ڈھونڈھتا ہی رہا درمیان کا
دنیا جھلک رہی ہے جو مجھ میں تو کیا عجب
میں آئنہ ہوں اپنے زمان و مکان کا
تسلیم کر چکا ہوں مقدر کے فیصلے
مجھ کو نہیں ہے خوف کسی امتحان کا
ہر درد نو پہ نغمۂ تازہ لکھیں گے ہم
تلخی نہیں مزاج ہماری زبان کا
سارے ستم زمین پر اہل زمیں کے ہیں
شکوہ کروں تو کیسے کروں آسمان کا
اوپر فلک سے جہل عقیدت نے کر دیا
منبر بلند واعظ شعلہ بیان کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.