جانے کیسے ہوں گے آنسو بہتے ہیں تو بہنے دو
جانے کیسے ہوں گے آنسو بہتے ہیں تو بہنے دو
بھولی بسری بات پرانی کہتے ہیں تو کہنے دو
ہم بنجاروں کو نا کوئی باندھ سکا زنجیروں میں
آج یہاں کل وہاں بھٹکتے رہتے ہیں تو رہنے دو
مفلس کی تو مجبوری ہے سردی گرمی بارش کیا
روٹی کی خاطر سارے غم سہتے ہیں تو سہنے دو
اپنے سکھ سنگ میرے دکھ کو ساتھ کہاں لے جاؤ گے
الگ الگ وہ اک دوجے سے رہتے ہیں تو رہنے دو
خون غریبوں کا دامن میں اپنے نا لگنے دیں گے
سپنوں کے گر محل ہمارے ڈہتے ہیں تو ڈہنے دو
پیار میں ان کے سدھ بدھ کھو کر اس طرح بے حال ہوئے
لوگ ہمیں عاشق آوارہ کہتے ہیں تو کہنے دو
مست مگن ہم اپنی دھن میں رہتے ہیں دیوانوں سا
جانے کتنے ہم کو پاگل کہتے ہیں تو کہنے دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.