جانے کیسے میں سدا بے بال و پر اڑتا رہا
جانے کیسے میں سدا بے بال و پر اڑتا رہا
دوستوں کے شہر میں مثل خبر اڑتا رہا
عمر کی یہ تیز گامی اور پھر تیرا خیال
ایک سایہ سا پس گرد سفر اڑتا رہا
کیسے کیسے امتحاں تو نے لئے اے زندگی
پھر بھی میں بازو شکستہ عمر بھر اڑتا رہا
جانے کیا سمجھا کے اس کو لے گئی پاگل ہوا
دیر تک پتہ شجر سے ٹوٹ کر اڑتا رہا
پاؤں وحشت نے پکڑ رکھے تھے صحرا دیکھ کر
اور تصور جانب دیوار و در اڑتا رہا
اک پرندہ امن کا پالا تھا ہم نے پیار سے
لاکھ کاٹے بال و پر تم نے مگر اڑتا رہا
منتظر اس بار بھی آنکھیں رہیں اپنی ضیاؔ
کوئی چہرہ بادلوں کے دوش پر اڑتا رہا
- کتاب : Pas-e-Gard-e-Safar (Pg. 42)
- Author : Zia Farooqui
- مطبع : Educational Publishing House (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.