جانے کیا آسیب تھا پتھر آتے تھے
جانے کیا آسیب تھا پتھر آتے تھے
رات گئے کچھ سائے چھت پر آتے تھے
صبح وہ کیاری پھولوں سے بھر جاتی تھی
تم جس کی بیلوں میں چھپ کر آتے تھے
میں جس رستے پر نکلی اس رستے میں
صحراؤں کے بیچ سمندر آتے تھے
چاند کی دھیمی دھیمی چاپ ابھرتے ہی
سارے سپنے پھول پہن کر آتے تھے
اس سے میری روح میں اترا ہی نہ گیا
رستے میں دو گہرے ساگر آتے تھے
خوابوں کے یاقوت سے پوریں زخمی ہیں
راس مجھے کب ایسے زیور آتے تھے
- کتاب : ایک دیا اور ایک پھول (Pg. 42)
- Author : عشرت آفریں
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.