جانے کیا بات ہے کیوں گرمئ بازار نہیں
جانے کیا بات ہے کیوں گرمئ بازار نہیں
اب کوئی جنس وفا کا بھی خریدار نہیں
لوگ اک شخص کو لے جاتے ہیں مقتل کی طرف
اس پہ الزام ہے اتنا کہ گنہ گار نہیں
زندگی زخم سہی زخم کا درماں کیجے
کوئی اس شہر میں زخموں کا خریدار نہیں
پیکر شعر میں ڈھل جائے کسی کا چہرہ
میرے اظہار محبت کا یہ معیار نہیں
تیری اک نیچی نظر عمر کا سرمایہ ہے
ساقیا میں ترے ساغر کا طلب گار نہیں
یوں بھی ہم درد کو پہلو میں چھپا لیتے ہیں
مجرم شوق ہیں رسوا سر بازار نہیں
اپنی مرضی سے یہاں مجھ کو بہا لے جائے
تیز اتنی تو ابھی وقت کی رفتار نہیں
آپ کے درد سے رشتہ ہے مرے دل کا رئیسؔ
کون کہتا ہے کہ میں آپ کا غم خوار نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.