جانتا ہے تو ہماری رفعتوں کو آسماں
جانتا ہے تو ہماری رفعتوں کو آسماں
ہے ہماری خاک پا سے یہ چمکتی کہکشاں
کیا ڈرائیں گی مجھے یہ چند کالی بدلیاں
بجلیوں کے سائے میں پل کر ہوا ہوں میں جواں
رشک سے تم اس طرح دیکھو نہ میرا آشیاں
ٹوٹ کر تم پر بھی گر سکتی ہیں یارو بجلیاں
تم جنہیں کانٹے کہا کرتے ہو اہل گلستاں
عصمت گل کے یہی ہوتی ہیں اکثر پاسباں
تیری محفل میں خموشی بھی ہے میرا امتحاں
میں زباں رکھتے ہوئے بھی ہو گیا ہوں بے زباں
بات بھی سننا انہیں میری گوارا اب نہیں
جن کے افسانے کو دی ہیں خون دل سے سرخیاں
اس لئے پھیری ہے شاید میری جانب سے نظر
دیکھ پاؤ گے نہ تم میری نگاہ خوں چکاں
یہ خلوص و مہر و الفت تو حسیں الفاظ ہیں
جن کے معنی میں چھپی ہیں زندگی کی تلخیاں
ہم نہ ہوں گے پھر بھی یہ دنیا اسے دہرائے گی
ہم نے لکھ دی ہے غزل میں اپنے دل کی داستاں
بجھ چکا تھا تیری فرقت میں دل ثاقبؔ مگر
تیری یادوں نے کیا ہر گوشۂ دل ضو فشاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.