جانتا ہوں میں ترے کتنے پرستاروں کو
جانتا ہوں میں ترے کتنے پرستاروں کو
زندگی چھو نہ سکے جو ترے رخساروں کو
جن فصیلوں پہ بہت دل کو بھروسا تھا انہیں
گرتے دیکھا تو پکارا تھا بہت یاروں کو
روشنی برق کرن پھول غزل چنگاری
اتنا آسان نہیں بھولنا دل داروں کو
ہم کو خوش فہمیٔ احساس نے زندہ رکھا
عمر بھر پھول سمجھتے رہے انگاروں کو
اب وہ پتھر ہے بلندی سے زمیں پر گر کر
چشم حیرت سے تکا کرتا ہے کہساروں کو
کوئی طوفان نہ رکھ دیں یہ فصیل و در میں
دیکھتے رہنا ذرا ملک کے معماروں کو
ہم مسافر ہیں ترے گھر میں مگر اے دنیا
جاوداں کر دیا ہم نے ترے نظاروں کو
وہ چلے جائیں جو پتھر کا جگر رکھتے ہیں
حال دل ہم نہ سنا پائیں گے دیواروں کو
سادگی دیکھ کے تیری مجھے ڈر لگتا ہے
چھو نہ لے تو کہیں جلتے ہوئے انگاروں کو
شام آتی ہے تو خاموش سمندر کے قریب
خوشبوئیں ڈھونڈھتی پھرتی ہیں خریداروں کو
خوبصورت ہے نئی قدروں کا نقشہ لیکن
گھر نہ گر جائے سنبھالے رہو دیواروں کو
عرش تک پہلے بس اتنی ہی رسائی تھی بشیرؔ
چھو لیا کرتے تھے ہم چاند کے رخساروں کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.