جب آبلوں سے کرب کے دھارے نکل پڑے
جب آبلوں سے کرب کے دھارے نکل پڑے
اذن سفر کے پھر سے اشارے نکل پڑے
جب گرم پانیوں سے مری گفتگو ہوئی
تو برف کے بدن سے شرارے نکل پڑے
اس وقت اپنے آپ کی مجھ کو ملی خبر
جب شہر گم شدہ میں شمارے نکل پڑے
امید بحر نو میں کبھی غوطہ زن تھا میں
کیوں گہرے پانیوں سے خسارے نکل پڑے
خوف شب مہیب مٹانے کے واسطے
سورج کے ساتھ چاند ستارے نکل پڑے
رستے کے پتھروں نے ہمیں جب بھی دی صدا
ہم نے تھکن کے بوجھ اتارے نکل پڑے
ہم کو نہ پا کے حادثے اپنے مقام پر
تابشؔ ہماری کھوج میں سارے نکل پڑے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.